رُوح آبَاد
حضرت روح آباد تشریف لائے تو اودھ کے ایک منصب دار رئیس سیف خاں جن کو صوفیائے کرام سے بے پناہ عقیدت تھی، اپنے مصاحبوں کے ساتھ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اورپہلی ہی ملاقات میں بندۂ بے دام ہو گئے اور مرید ہونے کی خواہش ظاہر کی؛ لیکن حضرت نے کوئی توجہ نہیں فرمائی، حضرت رئیسوں اور امیروں کو مرید کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ ادھر سیف خاں کا اشتیاق بڑھتا گیا۔ اور عزم کرلیا کہ حکومت اور ریاست چھوڑ کر حضرت کی غلامی کا شرف حاصل کروں گا، حضرت کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو سیف خاں کو بلوایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ بعض طالبوں کو اپنے قربِ خاص سے اس طرح سرفراز فرماتا ہے کہ کثرتِ کام اورہجومِ اَنام بھی ان کی توجہ باطنی میں رکاوٹ نہیں ہوتے، اور یہ آیت کریمہ پڑھی:۔
رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ ٭
یعنی ایسے لوگ بھی ہیں جو خرید وفرخت دنیا کے سب کام کرتے ہیں لیکن یادِ حق سے غافل نہیں ہوتے۔
حضرت کے ان نصیحت آمیزکلمات سے سیف خاں کو کچھ تسکین ہوئی۔ ایک رات سیف خاں کو حضرت نے اپنے خیمے میں بلایا، سیف خاں نے دیکھا کہ ایک نہایت خوبصورت ادرحسین دوشیزہ حضرت کے پہلو میں بیٹھی ہے اور صراحی اور پیالہ اس کے ہاتھ میں ہے، سیف خاں نے جب اچھی طرح سب کچھ دیکھ لیا توحضرت نے حکم دیا باہر چلے جاؤ۔ سيف خان اپنی آنکھوں سے یہ تماشادیکھ کر چلے آئے؛ لیکن ان کی عقیدت میں کوئی فرق نہیں آیا، بدستور حاضری دیتے رہے۔ کچھ دن کے بعد حضرت نے ان سے فرمایا کہ تم نے مجھے گناہ کبیرہ کا ارادہ کرتے ہوئے دیکھا ہے پھر بھی میرے پاس اپنا وقت ضائع کرنے آتے ہو۔ سيف خاں نے عرض کیا حضور غلام کو آقا کے کام میں کیا دخل؟ میں جانتا ہوں کہ وہ عورت جنّیہ تھی اور صراحی میں شراب نہ تھی؛ بلکہ شربت تھا۔اگرواقعی وہ شراب ہوتی تو بھی اولیاء کے لیے عصمت شرط نہیں ہے۔ البتہ انبیاء کے لیے شرط ہے۔ میری عقیدت تواب پہلے سے دس گنی ہوگئی ہے۔
اس امتحان کے بعد حضرت نے سیف خاں کو مرید کر لیا اور راہِ سلوک و معرفت کی تعلیم فرمائی، سیف خاں اس کے بعدا پنے منصبی فرائض میں بہت کم وقت صرف کرتے تھے، زیادہ تر یادِ حق اورعبادت الٰہی میں مشغول رہتے تھے، انھیں کے اصرارپر حضرت نے اودھ میں اپنے لیے ایک خانقاہ بنوائی، جس میں حضرت کبھی کبھی جاتے اور قیام فرماتے تھے۔ اس خانقاہ کو مستقل طورپر حضرت کے خلیفہ شیخ شمس الدین آبادر کھتے تھے،حضرت نے اصول شریعت اورطریقت کے بیان| میں ایک رسالہ ”بشارت الاخوان“ کے نام سے تحریر فرمایا۔ اس ر سالے کے مقدمہ میں سیف خاں کا بھی ذکر ہے،سیف خاں نے عبااور چوغہ اتارکر لباس درویشی اختیارکرنا چاہا توحضرت نے انھیں روک دیا اور فرمایا:۔
حاجت بہ کلاہِ بَرے کی داشتنت نیست
درویش صفت باش وکلاہ تتری دار
درویشی کے لیے بَرکی ٹوپی پہننے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ درویش صفات کاحامل ہو اور تاتاری ٹوپی پہن۔
For Contact Us
Go to Contact Page
or
Mail:contact@makhdoomashraf.com
Cal:+91-9415721972